Results 1 to 2 of 2

Thread: کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    candel کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

    کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

    818 87406628 - کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

    کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال?hash16537d23dfdbdedb09e1a5b0cf77abe2 - کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال
    رشتے آسمانوں پہ طے ہوتے ہیں،کچھ کی قسمت میں آزاد رہنا لکھا ہوتا ہے،وہ کہتے ہیں کہ ہم ساری زندگی اکیلے ہی رہیں گے،
    موبائل فون نے نئی نسل کو ایسی زندگی کا عادی بنا دیا جو زمین پر کہیں موجود نہیں بعض لوگ ایک بیوی کی خاطر کئی رشتے ’’کھو‘‘دیتے ہیں
    اپنی زندگی جئیں جب چاہیں گے ا ٹھیں گے جب مرضی آئے گی سو جائیں گے جتنی دیر چاہیں گے سوتے رہیں گے،جو جی میں آئے گا کریں کوئی ہمیں روکے یا ٹوکے گا نہیں ۔۔۔ یہ ہمیں برداشت نہیں‘‘۔فیکٹری میں کام کرنے والے ایسے ہی ایک نوجوان شبیراشرف ے کہا کہ،

    اس زندگی کا اپنا ہی مزہ ہے، مگر میں کیا کروں لوگ اس طرØ+ بھی زندہ نہیں رہنے دیتے۔مالک مکان کہتا ہے ہم اکیلے Ú©Ùˆ گھر نہیں دیتے۔طلبا Ú©ÛŒ طرØ+ ہوسٹلوں میںرہنا پڑتا ہے۔اس سے کافی پرشانیاں ہوتی ہیں۔لیکن میں شادی کر Ú©Û’ Ú¯Ù„Û’ میں گھنٹی نہیں باندھنا چاہتا‘‘۔
    سلیم کہتا ہے کہ’’ میرے ہمسائے میںہر وقت گولہ باری ہوتی رہتی ہے،جیسے بھارت بھی وہیں آ گیاہو،اتنی گولہ باری کہ میرے گھر کا سکون بھی برباد ہو گیا ہے، کئی مرتبہ تو مجھے اور میرے والدین Ú©Ùˆ بھی یواین او بن کر ان Ú©Û’ گھر جانا پڑا تھا۔اس Ø+قیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ بسا اوقات ایک دوسرے Ú©ÛŒ مسائل دیکھ کر بھی نوجوان پریشان ہو جاتے ہیں اور زندگی سے فرار Ú©Û’ راستے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ شادی ان Ú©Û’ نصیب میں نہیں ہوتی۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شادی سے فرار Ø+اصل کرنے والوں Ú©ÛŒ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے،دیر سے شادی کرنے والوں Ú©ÛŒ تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ساری زندگی کنوارے ہی رہیںگے۔
    Ú©Ú†Ú¾ نوجوان توایک شادی سے ڈرتے ہیںاورکچھ دو شادیاں کر Ú©Û’ بھی نہیں پچھتاتے۔ تیسری Ú©ÛŒ خواہش مچلتی رہتی ہے۔کچھ رشتے شادی Ú©ÛŒ رات ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔میں شادی Ú©Û’ اگلے روز ہی طلاق کا مطالبہ کر Ù†Û’ والی دو تین لڑکیوں Ú©Ùˆ بھی جانتا ہوں ۔۔کہتی تھیں۔۔’’یہ شادی تو ہم Ù†Û’ خاندان Ú©Ùˆ خوش کرنے Ú©Û’ لئے Ú©ÛŒ ØŒ اب ہمیںاپنی زندگی خود جینا ہے،اپنے سٹائل سے جینے Ú©Û’ لئے دوسری شادی کروں گی‘‘۔ان Ú©ÛŒ Ø+یثیت بھی کنواروں سے Ú©Ù… نہیں۔اسی لئے کئی نوجوانوں Ú©ÛŒ دو دو مرتبہ شادی ہوتی ہے مگر سہانے سپنوں Ú©ÛŒ وجہ سے وہ بھی نہیں Ú†Ù„ پاتی۔ایسا Ú©Ù… ہے مگر ہے ضرور۔یہ سماجی المیے Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نہیں۔بیوی Ú©Ùˆ ’’Better Half‘‘ کہنے والے اسی بیٹر ہاف سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔بہتر ہاف ،بدتر ہاف Ú©Û’ روپ میں ڈسنے لگتا ہے تو طلاق Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نظر نہیں آتا۔یورپ میں شادیوں سے زیادہ طلاقیں ہورہی ہیں ۔مرد وخواتین اپنے اپنے راستے جدا کر رہے ہیں،کیوں؟کونسی آفت آگئی کہ اب شادیاں Ú©Ù… اور جدایاں زیادہ ہو رہی ہیں؟پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے ۔چند ہی دنوں میں لومیرج میں سے لو Ù†Ú©Ù„ جاتا ہے اور صرف میرج رہ جاتی ہے، پھر وقت Ú©Û’ ساتھ ساتھ یہ رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اکثر کیسوں میں زندگی Ú©ÛŒ گاڑی بس چلتی رہ تی ہے کیونکہ بچے ہو جاتے ہیں ،اور وہ ایک بائنڈنگ فورس Ú©ÛŒ صورت میں دونوں Ú©Ùˆ الگ نہیں ہونے دیتے۔ایسا کیوں ہے ،کچھ تو گڑبڑ ہے!
    Ú©Ú†Ú¾ افراد کا کہنا ہے کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں مگر ان Ú©ÛŒ تعداد نہایت ہی Ú©Ù… ہے، آٹے میں نمک Ú©Û’ برابر۔وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی جینا چاہتے ہیں۔مگر اپنی زندگی شادی سے بہتر تو نہیں ہو سکتی جو کہ ایک سماجی فریضہ بھی ہے۔اس Ú©Û’ بغیر فرد مکمل ہی نہیں ہوتا۔شادی شدہ افراد Ú©Û’ پاس اپنے ماں باپ Ú©Û’ لئے بھی وقت نہیں ہوتا۔ اس Ú©Û’ برعکس غیر شادی شدہ افراد Ú©ÛŒ با نسبت غیر شادی شدہ افراد کہیں زیادہ متØ+رک ہوتے ہیں ،والدین کا خیال بھی رکھتے ہیںاور Ù…Ø+Ù„Û’ میں بھی خدمت انجام دیتے ہیں۔مغرب میں 18برس Ú©ÛŒ عمر میں 62فیصد شادیوں Ú©ÛŒ وجہ سے ہی نوجوانوں Ú©Ùˆ اپنے ماں باپ Ú©Ùˆ اولڈ ہومز Ú©ÛŒ زینت بنانا پڑتا ہے۔اب ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔اب یہ نوبت ہمارے ہاں بھی آ گئی ہے،میرے ایک پرانے دوست کا باپ شدید بیمار تھا،مسلسل ہسپتال جانا پڑتا تھا۔ اس Ú©Û’ تین بھائی تھے ،ایک دن دوسرے دو بھائیوں Ù†Û’ کہا کہ،
    ’’ابا جی کی بیماری کے بارے میں آپ ہمیں نہ بتایا کریں ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے جب بھی ہسپتال جانا ہو تو خود ہی لے جایا کریں،ہم ابا جی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
    میرے دوست Ù†Û’ ایسا ہی کیا۔انہوں Ù†Û’ اباجی Ú©ÛŒ بیماری Ú©Û’ بارے میں پھر اپنے بھائیوں Ú©Ùˆ کبھی تکلیف نہ دی۔ چند مہینو Úº Ú©ÛŒ علالت Ú©Û’ بعد اباجی کا انتقال ہو گیا۔ پتہ نہیں کہاں سے ان بھائیوں Ú©Ùˆ بھی خبر ہو گئی، ایمبولینس Ú©Û’ گھر پہنچنے سے پہلے وہ میرے دوست Ú©Û’ گھر پہ تھے۔تدفین سے پہلے جائیداد میں Ø+صہ مانگ رہے تھے۔ دوران علالت اپنے بیٹوں Ú©ÛŒ نفرت دیکھ کر اباجی Ù†Û’ جائیداد کا ایک Ø+صہ اپنے پیارے بیٹے Ú©Ùˆ دے دیا۔دونوں بھائیوں Ù†Û’ اسے بھی متنازعہ بنا دیا Û” اب کئی سال ہو Ú†Ú©Û’ ہیں جائیداد Ú©ÛŒ تقسیم کا یہ مقدمہ اب عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ایسی بیٹے بھی ہیں Û” ان Ú©ÛŒ تعداد Ú©Ù… ہے لیکن بڑھ رہی ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔یہ مستقبل میں بڑا سماجی المیہ بن سکتا ہے۔ وہ اس بارے میں مغرب Ú©ÛŒ اقدار اپنا رہے ہیں جو ہمیں کسی دلدل میں دھنسا سکتی ہے۔ ہمارے سماج میں بھی یہی مصیبت سرایت کررہی ہے جس سے ڈھانچے Ú©ÛŒ بنیادیں ہل رہی ہیں۔ اکثر لوگ اپنے والدین یا بھائیوں Ú©Ùˆ ایک روپیہ دیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ اپنے بچوں Ú©ÛŒ فکر انہیں دل ہی دل میں کھائے جاتی ہے، میرے بعد ان کا کیا بنے گا؟بعض تو اپنا بڑھاپامØ+فوظ بنانے Ú©ÛŒ خاطر بچوں Ú©Ùˆ بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ہماری Ø+کومت سماجی خدمات Ú©Û’ شعبے میں زبانی جمع خرچ سے زیادہ ’‘’خرچ ‘‘ نہیں کرتی۔
    یہ اپنی زندگی کیا ہے؟سماجی اور معاشی امورکے ماہرپروفیسر گلشن بیگ کہتے ہیں کہ ،
    ’’اپنی زندگی Ú©Ú†Ú¾ بھی نہیں ہے،انسان دنیا میں آتا کیوں ہے؟اللہ Ú©ÛŒ عبادت ا ور انسانیت سے Ù…Ø+بت۔دنیا میں زندگی Ú©Ùˆ جاری Ùˆ ساری رکھنے Ú©Û’ لئے اللہ تعالیٰ Ù†Û’ شادی کا مقدس رشتہ بنایا ۔ہم اس Ú©Ùˆ ترک نہیںکر سکتے۔نہ ہی اپنی زندگی نام Ú©ÛŒ کوئی زندگی موجود ہے۔اپنی زندگی تو روم Ú©Û’ جلتے وقت بانسری بجانے والے نیرو Ù†Û’ ہی گزاری تھی۔جسے ساری دنیا لعن طعن کر رہی ہے۔زندگی وہی ہے جو ہم سب ایک دوسرے Ú©Û’ ساتھ مل جل کر گزارتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ سوشل میڈیا Ù†Û’ نوجوانوں Ú©Û’ ذہن Ú©Ùˆ پراگندا کر دیا ہے، موبائل Ù†Û’ شادی،دوستی، تعلقات اور رشتے داری سے متعلق ہر تصور Ú©Ùˆ ہی بدل دیا ہے۔Ø+تیٰ کہ ماں باپ کا تصور بھی بدل گیا ہے۔ موبائل فون Ù†Û’ فرد Ú©Ùˆ مصنوعی زندگی کا عادی بنا دیا ہے، ایک ایسی زندگی کا جو اس زمین پر تو کہیں بھی موجود نہیں ۔شادی Ú©Û’ اگلے ہی روز جب زندگی Ú©ÛŒ پرتیں ایک ایک کرکے کھلنا شروع ہوتی ہیں، معاشی مسائل سر اٹھانا شروع کرتے ہیں تو پھر نوجوان Ú©Ùˆ امی یاد آجاتی ہے۔اس وقت سوشل میڈیا Ù†Û’ جو بھوت ذہن پر سوار کر دیا ہوتا ہے، اتر چکاہوتا ہے اسی لئے رشتے جس تیزی سے بنتے ہیں اسی تیزی سے بگڑتے بھی ہیں‘‘۔
    اس بارے میں رشتے کرانے والی ایک خاتون نے کہا کہ،
    ’’اس Ø+قیقت میں کوئی Ø´Ú© نہیں کہ مائوں Ú©Ùˆ اپنے بیٹے Ú©ÛŒ تمام عادتوں کا پتہ ہوتا ہے، ہم جانتی ہیں کہ لڑکا ٹھیک نہیں اور مستقبل میں مزید خراب ہو جائے گا، لیکن مائیں کہتی ہیں کہ نہیں۔۔۔آپ اچھی سی Ù„Ú‘Ú©ÛŒ ڈھونڈ دیں، وقت Ú©Û’ ساتھ ساتھ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ شادیاں زیادہ دیر تک نہیں چلتیں۔‘‘
    لیڈی ڈاکٹرسعدیہ اقبال کا تعلق کئی این جی اورز سے بھی رہا ہے، اس Ø+والے سے وہ مختلف دیہات Ú©Û’ دورے بھی کرتی رہی ہیں،انہیں طرØ+ طرØ+ Ú©Û’ افراد سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا ہے، اس سوال Ú©Û’ جواب کہ Ú©Ú†Ú¾ لوگ شادی Ú©Û’ بعد بھی اپنی زندگی میں تبدیلیاں نہیں لانا چاہتے اور مسلسل پرانی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں اور یہی بات رشتے میںزہر گھول دیتی ہے تو انہوں Ù†Û’ کہا کہ ØŒ
    ’’جلدی طلاقوں Ú©ÛŒ کئی وجوہات ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نئی نسل کا ایک بڑا Ø+صہ خوابوں والی زندگی کا عادی ہو چکا ہے،وہ خوابوں سے باہر Ø+قیقی زندگی اور اس Ú©ÛŒ تلخیوں سے واقف ہی نہیں ہے، ان میں سے بھی بہت سے ایسے بھی ہوں Ú¯Û’ جو اپنی پرانی ڈگر Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Ù†Û’ پر راضی نہیں ہوتے،وہ نئی ذمہ داریاں اٹھانے Ú©Û’ قابل نہیں رہے۔ میں Ù†Û’ اس صورت میں کئی گھر ٹوٹتے دیکھے ہیں ۔ڈاکٹر Ú©Û’ ساتھ ساتھ نفسیات کا کنسلٹنٹ بن کر بھی ان Ú©ÛŒ کونسلنگ کرنا پڑتی تھی ۔میں تو یہی مشورہ دوں Ú¯ÛŒ کہ شادی بہت دیکھ بھال کر Ú©ÛŒ جائے۔ عارضی Ú†Ù…Ú© دمک کا شکار ہونے Ú©ÛŒ بجائے Ø+قیقی مسائل اور زندگی Ú©ÛŒ ضروریات Ú©Ùˆ اہمیت دی جائے یعنی یہ دیکھا جائے کہ Ù„Ú‘Ú©Û’ یا Ù„Ú‘Ú©ÛŒ میں دوسروں Ú©Û’ ساتھ مل بیٹھ کر کام کرنے یا دوسرے خاندان Ú©Ùˆ اپنانے والے کتنے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ ایسا نہ ہونے Ú©ÛŒ صورت میں شادی کا بنھایا جانا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔
    امریکیوں کاشادی پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے، کہاں 1960Ø¡ میںعہد نوجوانی میں ہی 72فیصد امریکی Ù„Ú‘Ú©ÙˆÚº اور لڑکیوںکے ہاتھ ’’پیلے ‘‘ہو جاتے تھے او رکہا Úº یہ وقت آ گیا کہ 18برس Ú©Û’ ہوگئے مگر 50فیصد بھی شادی سے Ù…Ø+روم ہیں۔امریکہ میں پہلی شادی Ú©ÛŒ عمر 18تقریباََبارہ برس کا اضافہ ہو چکا ہے Û” Ù„Ú‘Ú©Û’ Ú©ÛŒ شادی Ú©ÛŒ مجموعی عمر 30برس اور Ù„Ú‘Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ 28برس ہو Ú†Ú©ÛŒ ہے، آدھی آبادی اس عمر سے پہلے شادی کا لفظ سننا بھی گوارہ نہیں کرتی۔
    شادی سے کئی دوسرے رشتے کمزور Ù¾Ú‘ جاتے ہیں،شادی نوجوان Ú©Ùˆ پرانے راستے سے ہٹا کر نئی ڈگر پہ ڈال دیتی ہے،جہاں وہ خود Ú©Ùˆ کسی مشین Ú©ÛŒ طرØ+ پاتا ہے،ماہرین Ú©Û’ نزدیک ایسی شادیاں دیر تک نہیں چلتیں Û” لاکھوں Ù„Ú‘Ú©ÙˆÚº Ù†Û’ اپنے سہارے Ú©Û’ لئے ہی شادی رچائی ،پھر جب وہی بیوی بوجھ دکھائی دینے Ù„Ú¯ÛŒ تو کسی بے جان Ø´Û’ Ú©ÛŒ طرØ+ راستے میں جہاں چاہا ØŒ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا۔ شادی Ú©Û’ جہاں ہزار ہا فائدے ہیں وہاں اس Ú©ÛŒ قیمت بھی چکانا پڑتی ہے،یہ واقعی بہت Ú©Ú†Ú¾ چھین لیتی ہے،بلکہ اکثر مرد Ú©Ùˆ تمام رشتوں سے کاٹ کر تنہائی Ú©ÛŒ دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔کہتے ہیں شادی وہ موتی چور Ú©Û’ Ù„ÚˆÙˆ ہیں جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے Û”
    سوشل سائنسد ان اینڈریو چارلن Ù†Û’ اس کا جواب مغرب Ú©ÛŒ بے راہ روی میں تلاش کیا ہے۔جبکہ جج انتھونی کینیڈی Ù†Û’ اپنے ایک فیصلے میں لکھا تھا،’’اکیلا آدمی پریشان رہتا ہے، بیماری ØŒØ+ادثے میں کون مدد Ú©Ùˆ آئے گا ،برے وقت میں Ø+فاظت Ú©Û’ لئے کوئی اچھا Ù…Ø+Ù„Û’ دار تلاش کرتا ہے توکوئی Ù„Û’ پالک بچوں Ú©ÛŒ صورت میں اپنے بڑھاپے Ù…Ø+فوظ کرنے Ú©Û’ جتن کرتا ہے۔ مرد Ú©ÛŒ یہ سوچ کس قدر خود غرضانہ ہے، اپنی ذات Ú©Û’ خول سے وہ باہر کیوں نہیں دیکھتا ،کیوں اسے خود Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ دکھائی نہیں دیتا۔ اپنی ضرورت Ú©ÛŒ خاطر وہ کیوںدوسروں کواپنے ساتھ جکڑ لیتا ہے Û”
    (All or Nothing Marriage) میں ماہر نفسیات ایلی فنکل(Eli Finkel)نے لکھا ہے ،
    ’’دوسو برس میں شادی Ú©Û’ بارے میں مرد Ú©ÛŒ توقعات میں اضافہ ہوا ہے، لوگ ا پنی بیوی سے وہ امیدیں لگا بیٹھے ہیں جنہیں پورا کرنا بیویوںکے بس میں نہیں۔صرف ایک نسل پہلے مثالی شادی میںپیار ØŒ Ù…Ø+بت، تعاون،خاندان اور برادری Ú©ÛŒ جھلک نظر آتی تھی۔مگراب ہم چاہتے ہیں کہ بیوی ہمارے معاشرتی مقام میں اضافے کا سبب بنے،ہمیں عزت Ùˆ وقار دلوائے جو ہم خود Ø+اصل نہیں کر سکے۔سیلف ڈویلپمنٹ میں بھی میاںکی معاون بنے۔اسے آزادی اور وقت دے، زیادہ توقعات نہ رکھے ،نہ پوچھے وہ کہاں ہے، کیوں ہے ØŒ کب آئے گااو رپھر کہاں جائے گا۔یعنی اب مرد Ù†Û’ بیوی سے وہ توقعات لگالی ہیں جو پہلے وہ پورے معاشرے سے رکھتا تھا۔یہ کام عورت Ú©Û’ کرنے Ú©Û’ ہرگز نہیں ہیں۔‘‘
    اب ہم دیکھتے ہیں کہ اینڈریو چرلن(Andrew Cherlin) کیا کہتی ہیں۔بقول اینڈریو ’’شادی معمولی واقعہ نہیں Û” یہ انسان Ú©ÛŒ زندگی میں تناور درخت Ú©ÛŒ مانندہے۔اور پھر جب بچے ہو جائیں تو مرد اپنی تمام ذمہ داریاں بیوی Ú©Û’ سر تھوپ کر بچ نکلنے Ú©ÛŒ کوشش کرتا ہے۔ اکثر کیسوں میں گھر بھر Ú©ÛŒ Ù…Ø+نت اور دیکھ بھال Ú©ÛŒ بھاری ذمہ داریاں اسے بیمار ڈدال دیتی ہیں۔ تب شوہر اسے سبز جھنڈی دکھادیتا ہے۔شادی نہ ہونے Ú©ÛŒ صورت میں اس Ú©ÛŒ تمام تر ذمہ داری دوسروں پر ہوتی ہے جو اس Ú©Û’ بہن بھائی یا قریبی رشتے دار بھی ہو سکتے ہیں۔میںان دونوں باتوں Ú©Ùˆ ہی نہیں مانتا۔میرے نزدیک بیوی خاندان اور معاشرے میں مرد Ú©Ùˆ بہتر مقام Ø+اصل کرنے میں معاون بنتی ہے ،اسی لئے میں شادی Ú©Ùˆ Stabilizing Force بھی سمجھتا ہوں،جنتا Ú¯Ú‘ دڈالو Ú¯Û’ اتنا ہی میٹھا ہو گا Û”
    باپ کی بیماری کا سن کر دکھ ہوتا ہے، ہمیں نہ بتایا کریں:دو بیٹوں کا تیسرے بھائی کو مشورہ چند ہی دنوں میں لومیرج میں سے لو نکل جاتا ہے اور صرف میرج رہ جاتی ہے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے
    2gvsho3 - کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

    2gvsho3 - کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں Ú¯Û’! تØ+ریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •